وزیرا علیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ساتھ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا مستقبل بھی دائو پر
مسلم لیگ ن کو یہ برتری حاصل ہے کہ ماضی میں وہ صوبے کی سب سے بڑی جماعت رہی ہے اور اس بار اسے اتحادیوں کی حمایت بھی حاصل ہے
عثمان بزدار کی ناقص طرز حکمرانی اور پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات ن لیگ کے حق میں جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کو عمران خان کی سحر انگیز شخصیت کا ایج حاصل ہے
الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے خدشات کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کارکنوں کو یہ احساس بھی ہے کہ کامیابی کی صورت میں بھی تخت لاہور انہیں نہیں بلکہ مسلم لیگ ق کی ملے گا
پی ٹی آئی کے ان جلسوں میں عمران خان کے ہاتھ سے تسبیح کی طرح عثمان بزدار بھی غائب ہیں
لاہور (تجزیہ :محمد رضوان ملک)پاکستان اور صوبہ پنجاب کی تاریخ کا ایک بڑا مقابلہ آج 17 جولائی بروز اتوار کو ہونے جارہا ہے۔ کہنے کو تو یہ محض پی ٹی آئی کے ڈی سیٹ ہونے والے20 ارکان اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہے لیکن دیکھا جائے تو موجودہ صورت حال میں یہمحض پنجاب کی 20 نشستوں کا ضمنی مقابلہ نہیں بلکہ یہ ملکی اور پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا اور کانٹے دار مقابلہ ہے۔ یہ بیس نشستیں نہ صرف دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی بلکہ بڑی حد تک وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ بھی یہی بیس نشستیں کریں گی۔
ان انتخابات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نوازشریف از خود ان حلقوں میں انتخابی مہم چلاتے رہے ہیں۔ بلکہ صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے کئی ایک وزراء نے بھی اس انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لئے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا ہے ۔
ماضی میں کئی سالوں تک مسلم لیگ ن نے پنجاب پر راج کیا ہے اور 2018 ء کے انتخابات تک وہ صوبے کی سب سے بڑی پارٹی رہی ہے۔ اس بار مسلم لیگ ن کو یہ ایڈوانٹیج بھی حاصل ہے کہ وہ اسے پیپلزپارٹی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔لیکن پی ٹی آئی نے ماضی قریب میں بہت تیزی سے صوبے میں اپنی جگہ بنائی ہے اور پی ٹی آئی کی اسی مقبولیت سے اس کے مخالفین خوفزدہ ہیں۔
مسلم لیگ ن کی یہ برتری حاصل ہے کہ عثمان بزدار کی ناقص طرز حکمرانی اور پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اس کے حق میں جاتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کو عمران خان کی سحر انگیز شخصیت کا ایج حاصل ہے ۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کو یہ ایڈوانٹیج بھی حاصل ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنماء اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت سے انہیں ہرایا جاسکتا ہے۔ جس سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کا مورال کچھ ڈائون ہو ا ہے ۔
دوسرے پی ٹی آئی کارکنوں کا یہ بھی معلوم ہے کہ کامیابی کی صورت میں بھی تخت لاہور انہیں نہیں بلکہ مسلم لیگ ق کی ملے گا۔
تاہم نتیجہ جو بھی ہوں توقع یہی کی جارہی ہے کہ ان حلقوں میں کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملیں گے ۔
تاہم ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ان جلسوں میں عمران خان کے ہاتھ سے تسبیح کی طرح عثمان بزدار بھی غائب ہیں