سفر انسان میں حیرانگی جیسے جذبات کو تحریک دیتا ہے، اور نفس میں نت نئے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ جو منجمد فکر کو مہمیز لگتے ہیں، اور اس کے سامنے جوابات کا ایک نیا آفاق آشکار کر دیتے ہیں، جب انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی کا آغاز زمین پر وجود انسانی کی ابتدا سے ہوا تھا تو وہ خود کو ہزاروں صدیوں پر محیط ایک قدیم سفر کے سامنے پاتا ہے، دراصل کسی جگہ کے ساتھ وابستگی کا شعور انسان کو روحانی اور وجودی معنوں میں بیگانگی کا احساس نہیں ہونے دیتا۔
سفر میں انسان اپنے اخلاق کا اظہار کرتا ہے۔ اور اپنے نہاں خانوں کو منصہ شہود پر لے آتا ہے، سفر کے لغوی معنی بھی وضوح اور روشنی و تابانی کے ہیں۔ "اور صبح جب روشن ہوجائے”۔
اسی طرح سفر کے ایک معنی نقل و حرکت کرنا بھی ہے۔ سفر کی خاصیت ہے کہ اس سے ادراک میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اسی لئے سفر کو علمی تحریک کے ساتھ بھی جوڑا گیا ہے۔ اسی سفر کے مشتقات میں اسفار کا مطلب ڈھانپنے کے برعکس ہوتا ہے۔ جو فی الاصل لفظ "کفر” کا مفہوم ہے۔ گویا انسان کی نقل و حرکت اس کی فکر میں معرفت کے اسباب اور ایمان کے داعیے پیدا کرتی ہے۔
سفر کے تہذیبی پہلوں میں سے ایک قریشی ایلاف (قریش کو مانوس کرنے) کا معاہدہ ہے۔ جسے "ہاشم بن عبد مناف” نے شاہان شام کے ساتھ طے کیا تھا۔ اور شام و حجاز کے مابین مشترکہ مفادات دریافت کیے تھے ، پھر ان کی اولاد نے یمن کے باشندوں کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاہدے ترتیب دیے تھے، چنانچہ یہ معاہدے علاقائی باشندوں کے مابین مشترکہ مفادات کو دریافت کرنے کا سبب بنے، جنہوں نے انہیں بھوک سے نجات اور خوف سے امن فراہم کیا تھا، اور قرآن نے قریش کو اسی نعمت کا احسان یاد دلا کر انہیں منعم کا شکر ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا تھا۔ تاکہ یہ نعمتیں ہمیشہ برقرار رہیں۔ فرمایا "ان کو اس گھر کے مالک کی عبادت کرنی چاہیے جس نے ان کو بھوک میں کھلایا اور ان کو خوف سے امن دیا”۔
ایمان انسان کے زمینی سفر اور اس کے آسمانی سفر کو باہم جوڑتا ہے۔ صوفی فکر نے سفر کو معرفت خداوندی کی تلاش اور روحانی سعادت کے حصول کے ساتھ جوڑنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ محی الدین ابن عربی اپنی کتاب "الاسفار عن نتائج الاسفار” میں عارفین کے ہاں سفر کی تین اقسام بیان کرتے ہیں: سفر من اللہ، سفر الیہ، سفر فیہ: اللہ تعالی کی جانب سے سفر، اس کی طرف سفر اور اس میں سفر۔دلوں کی دوریاں ایک ہی وطن کے باشندوں میں تفریق پیدا کر سکتی ہیں۔ جبکہ دل ایک ہوں اور مقصد میں یگانگت ہو تو دور دراز کی بستیاں بھی قریب ہو جاتی ہیں، اور حج کا عظیم مقصد یہی وحدت ہے کہ زمین کے ہر گوشے سے حجاج کرام بیت اللہ کا سفر کرتے ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے کہ تیرے پاس پاپیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں۔ تاکہ اپنے فائدوں کے لئے آموجود ہوں اور مقررہ دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں۔ (الحج 27-28)
حج کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ "تعظیم الجوامع و احترام الاختلافات” ایسے اصول کا عملی نمونہ ہے۔ جس کا مطلب متفقہ امور کی تعظیم اور اختلافات کا احترام ہے، اور اس سے ہمارے معاشروں میں ثقافتی اور مذہبی تنوع کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ہم اس بات کو بھی سمجھ پاتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں مختلف مسالک اور اسلامی دبستانوں کے مابین اختلاف اپنی نوعیت کا ایک ثمر آور اور نتیجہ خیز اختلاف تھا، جس نے امت کے احیا اور اس کے تہذیبی منصوبے کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔
امتوں اور اقوام کے باہمی تعلقات کے ضمن میں موسم حج ہمیں اسفار حج اور جادہ افکار کے مابین تعلق کی اہمیت پر متنبہ کرتا ہے۔ مقدس مقامات چند رسمی عبادات کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ وہ روحانی، ثقافتی اور تجارتی مراکز ہیں جو دنیاوی معاملات اور مقدس عبادات کو منفرد طریقے سے باہم یکجا کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ دینی اور اقتصادی رابطوں کے مراکز ہیں۔
مسلم تہذیبی معمار یہ جان گئے تھے کہ تعمیر ارضی ایک عبادت ہے، چنانچہ سمر قند سے حجاز تک حج کے راستوں میں ہم بازاروں کو پھیلا ہوا دیکھتے ہیں۔ جسے "شاہراہ ریشم ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے آباواجداد مقدس مقامات کی زیارت کے دوران روحانی بالیدگی اور غربت اور بھوک کے خاتمے کے لئے بازار کھول کر حاصل کی جانے والی پائیدار ترقی کے مابین بہترین امتزاج پیدا کرنے میں کامیاب ہو پائے تھے۔
ہمارے اسلامی تناظر میں ہمیں ایسی فکر کی ضرورت ہے جو اہل بیت کے مابین جن کی محبت کا اللہ نے یہ فرماتے ہوئے حکم دیا ہے کہ "کہہ دو میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا بجز رشتہ داری کی محبت کے” (الشوری 23 ) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت کے مابین تعلق کو راسخ کرے جن صحابہ کرام کی تعریف اللہ نے یوں فرمائی ہے۔ "محمد رسول اللہ اور جو آپ کے ساتھ ہیں” (الفتح 29)، یہی ہمیں فکر کلی فراہم کرتی ہے جو ہمارے اندر وحدت اور یکجہتی کی روح پختہ کرتی ہے۔
ملتوں اور اقوام کے باہمی اختلافات ایک سماجی تفاعل تشکیل دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک فعال اور متحرک دوسرا پن اور غیر پیدا ہوتا ہے، انسانی تعارف مختلف گروہوں کے مابین ایک تبادلے کا کام کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: "اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو بے شک زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے”۔
اہل دانش کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے مابین تفرقہ بازی پیدا کرنے والے عوامل، ان کی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش اور انہیں مذہبی جواز فراہم کرنے جیسے عوامل کو بڑھتا ہوا دیکھ کر خاموش رہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے درمیان تکفیری بیانیوں کے اثرات سے غافل رہ سکتے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر خاصی جگہ بنالی ہے۔جب قوموں پر علم و اخلاق کا زوال آتا ہے تو ایک ہی دین اور ایک ہی ثقافت کے پیروکاروں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ ہم نے قرون وسطی میں مغرب کے اندر ہونے والے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کشمکش کی صورت میں کیا ہے۔
کائناتی اور عالمگیر سطح پر انسانی فکر کی وسعت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اپنے ثقافتی اور دینی تناظر میں داخلی تنوع کے اندر وسعت پیدا نہیں ہو جاتی۔ داخلی تنوع جتنا خوشحال اور منظم ہو گا اتنا ہی ہم خارجی تنوع کا ادراک رکھتے ہوئے اس سے مستفید ہونے میں کامیاب ہوں گے۔
انسانی شرف اور اس کے ثقافتی اور دینی امتیاز کا احترام کسی بھی حیات آمیز تہذیبی منصوبے کی بنیادی شرط ہے۔ اور اس منصوبے کی بنیادی شرائط میں سے ایک شرط اکثریت اور غلبہ و طاقت کی منطق سے دور ہونا ہے۔ جس کے نتیجے میں لامحالہ طور پر علیحدگی و دوری اور استبداد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
ہمیں آج اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اس طاقت کی منطق کے بجائے "اختلاف کا حق” تسلیم کریں ، جو طاقت حقیقت کا متبادل بن جاتی ہے اور کمزور محض باطل ٹھر جاتا ہے۔
طاقت کی منطق کو ایک طرف رکھ کر قرآن کریم مذہبی جبر اور ایمانی طبیعت کے مابین جوہری تضاد کو واضح کرتا ہے، ایمان اپنے جوہر میں اختیار اور ارادے کی آزادی پر قائم ہے۔ جیسا کہ قرآن ہمیں سکھاتا ہے ” اور کہہ دیجئے کہ حق تمھارے رب کی طرف سے ہے پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چائے کفر اختیار کرے” (الکہف 29)
مذہبی علیحدگی کسی طرح بھی سیاسی طور پر دوریاں پیدا کر دینے سے کم یا بدتر نہیں ہے، اور شاہد مذہبی تکفیر اور استبعاد کی سب سے بری شکل یہ ہے کہ دین مفادات کے حصول کا ایک ذریعہ بن جائے جس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اقتصادی خلل اور سیاسی رکاوٹوں کے حقیقی اسباب کا سامنا کریں اور تاریخی سطح کے اختلافی مسائل کو دہرانے سے گریز کریں جو ہمارے موجودہ حالات کے حقیقی مسائل کو حل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔ اختلاف کا ایک اہم اخلاقی اصول جسے سنہرا اصول کہا جاتا ہے اور جو اکثر مذاہب میں موجود ہے، اور وہ یہ کہ: "آپ دوسروں کے لئے وہی پسند کریں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں
” یہاں میں کہوں گا : دوسروں کے اعتقادات اور ان مذہبی تعلیمات کا مذاق اڑانا ایک خطرناک اخلاقی مسئلہ ہے۔ جس سے قرآن کریم خبردار کرتا ہے۔ "اے ایمان والو کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو”۔ یہاں تک کہ اسلام مذہبی مخالفین کو گالی دینے کی بھی ممانعت کرتا
ہے۔ اگرچہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں:
"اور جن کی یہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں انہیں برا نہ کہو ورنہ وہ بے سمجھی میں زیادتی کر کے اللہ کو برا کہیں گے اس طرح ہر ایک جماعت کی نظر میں ان کے اعمال کو ہم نے آراستہ کر دیا ہے پھر ان سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر آنا ہے تب وہ انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے: (الانعام 108)۔
چنانچہ مسلمان تو اس بات کا مکلف ہے کہ ایسا اخلاقی نمونہ پیش کرے جس کی پیروی دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی کریں، تو پھر اہل قبلہ اور مسلمان گروہوں کے ساتھ ہمارے اخلاق کی کیفیت کیا ہونی چاہیے!سیاسی حالات و اقدامات کتنے ہی کیوں نہ بدل جائیں امت کا ثقافتی اور روحانی مفہوم ہی اس کا گہرا مفہوم رہے گا ، یہاں ہمیں شوری جیسے عظیم ادارے کو دوبارہ واپس لانے کی اہمیت پیش نظر رکھنا چاہیں گے جو ایک وطن سے شروع ہو کر دور دراز کے مسلمان علاقوں تک محیط ہوتا ہے۔ اور آخر میں عید الاضحی کی مناسبت سے ہمیں عطا اور قربانی کے ان عظیم معانی کو یاد کرنے کی ضرورت ہے جنہیں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اللہ کی محبت اور خوشنودی کے لئے استعمال میں لایا تھا، اور یہ کہ ہم اہل ایمان کے مابین وحدت کی روح پھونک دی تاکہ یقینی طور پر ہم جہانوں کے لئے رحمت اور تمام انسانوں پر گواہ اور ایک امت وسط یعنی درمیانی امت بن پائیں۔