الیکشن قریب آتے ہی بھارت میں مساجد اور مسلمانوں کی سختی آگئی

الیکشن قریب آتے ہی بھارت میں مساجد اور مسلمانوں کی سختی آگئی


نئی دہلی میں چھ سو سال پرانی مسجد شہید،ہندووں کو تاریخی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت
تاریخی مسجد میں جمعہ کے دن نمازیوںکا سیلاب امڈ آیا، امام مسجد پر مشتعل ہندووں کا تشدد، پولیس نے مظلوم امام مسجد ہی کو گرفتار کر لیا

اسلام آباد(رپورٹ:محمد رضوان ملک)بھارت میںجوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں ۔مودی حکومت کی ہندوتوا پالیسی عروج پر پہنچ گئی ہے اور مسلمانوں اور مساجد کی سختی آگئی ہے۔ بابری مسجد کے بعد ایک اور تاریخی مسجد کو شہید کردیا گیاہے۔ جہاں نئی دلی میں 600 سالہ تاریخی مسجد کو شہید کردیا گیا وہی بھارتی عدالت نے تاریخی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت بھی دے دی۔ جس کے ردعمل میں جمعہ کے دن مذکورہ مسجد میں نمازیوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔
بھارتی عدالت کے حکم پر دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے 600 سال پرانی اخوند جی مسجد اور اس سے ملحق مدرسہ بحرالعلوم کو تجاوزات قرار دے کر مسمار کر دیا گیا۔مسجد کے پیش امام کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی رسمی نوٹس تک نہیں دیا گیا۔دلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے مسجد اور مدرسہ کے احاطے میں موجود قبریں بھی مسمار کردی گئیں۔
بابری مسجد شہید کرنے کے بعد انتہا پسند ہندوں نے مغلیہ دور کی ایک اور تاریخی مسجد پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی۔عدالت نے ہندو درخواست گزاروں کو گیانواپی مسجد وارانسی میں پوجا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
ہائی کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ گیانواپی مسجد کے احاطے کا سروے جاری رہے گا۔وارانسی کی سیشن کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ مسجد میں لگائی گئی رکاوٹوں کے عمل کو ایک ہفتے میں ہٹایا جائے۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ کاشی وشوناتھ مندر کے پجاری مسجد میں پوجا کروائیں گے۔
تاہم بتایا جارہا ہے کہ مسجد انتظامیہ نے سیشن عدالت کا یہ یک طرفہ فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے گذشتہ ہفتے ہی بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہونیوالے رام مندر کا افتتاح کیا ہے۔
دوسری طرف مسلمانوں کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیااور جمعہ کے روز نمازیوں کا سیلاب امڈ آیا۔دو دن پہلے ضلعی عدالت کے فیصلے کے بعد آنے والے پہلے جمعہ کے پیش نظر حفاظتی انتظام سخت کئے گئے۔ گیان واپی مسجد کے آس پاس اور حساس علاقوں میں اضافی نفری اور ڈرون کا استعمال کیا گیا۔ مسلم علاقے پوری طرح بند رہے۔ مسجد میں نماز جمعہ کیلئے آنے والے افراد کی تعداد معمول سے دو گنا زیادہ تھی۔ پولیس نے بیشتر افراد سے دیگر مسجدوں میں نماز ادا کرنے کی اپیل کی۔ سخت حفاظتی انتظامات کے بیچ جمعہ کی نماز پر امن طریقے سے ادا کی گئی۔ مسجد میں نمازیوں کی اتنی بڑی تعداد نے پولیس کو کچھ نمازیوں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ حکام نے ان افراد کو علاقے کی دیگر مساجد میں نماز ادا کرنے کیلئے کہا۔
واضح رہے کہ ضلعی عدالت کی ہندو ئوں کو گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دینے کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں میں تمام کاروبار بند رہے۔ اس دوران حفاظتی اقدام سخت کردیئے گئے۔ اس کے علاوہ مسجد کے اطراف بھی سخت پہرہ لگا یا گیا۔ حالات پر نظر رکھنے کیلئے ڈیویژنل کمشنر کوشل شرما، ضلع مجسٹریٹ ایس راج لنگم اور پولیس کمشنر موتھا اشوک، مسجد کے باہر موجود تھے۔
پولیس کمشنر نے کہا کہ پورے قصبے کے حالات کامسلسل جائزہ لیا جارہا ہے۔ حساس علاقوں میں پولیس کا گشت جاری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا پر باریک بینی سے نظر رکھی جا رہی ہے۔ گیان واپی مسجد اور اطراف کے علاقوں پر نظر رکھنے کیلئے ڈرون کی بھی مدد لی جا رہی ہے۔
انجمن انتظامیہ کمیٹی جو گیان واپی مسجد کے معاملات دیکھتی ہے، نے جمعہ کو بند کی اپیل کی تھی۔ دال منڈی، نئی سڑک، نادیسر اور اردل بازار کے تجارتی علاقوں میں بند کا خاطر خواہ اثر دیکھا گیا۔ کمیٹی نے ایک خط کے ذریعیبازار بند رکھنے اور نماز جمعہ پر امن طریقے سیادا کرنے کی گزارش کی تھی۔ اس میں مسلم خواتین کو گھر ہی میں رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
حفاظتی تدابیر کے متعلق پولیس کمشنر نے دیر رات پولیس عہدیداروں کی میٹنگ بلائی تھی۔ قریب کے اضلاع میں امن قائم رکھنے کیلئے دن میں اضافی پولیس کو متحرک کردیا گیا۔ اس کے علاوہ کاشی وشوناتھ دھام اور قریب کیعلاقوں میں اضافی حفاظتی عملہ تعینات کر دیا گیا۔ حفاظت کے پیش نظر حسا س علاقوں میں ریپڈ پولیس فورس (آر پی ائف)کو تعینات کیا گیا ہے۔
دوسری طرف ان کشیدہ حالات میں غیرملکی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں پولیس اسٹیشن کے نزدیک ہجوم نے امام مسجد کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا لیکن پولیس نے امام مسجد پر تشدد کرنے والے ہجوم میں شریک افراد کے بجائے پولیس نے امام کو ہی گرفتار کرلیا۔
اس واقعے سے متعلق غیرملکی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 24 جنوری کو مولانا اصغر علی اپنے گھر سے مقامی گاں کے مدرسے کے لیے گئے جہاں وہ تقریبا 2 سال سے پڑھا رہے ہیں۔ بچوں کو پڑھانے کے بعد وہ دوپہر کے کھانے کے لیے گھر واپس آئے۔ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی وہ کھانے کے لیے بیٹھے تو سیکڑوں افراد نے گھر کا دروازہ زور سے کھٹکھٹانا شروع کردیا اور کہا کہ مجھے ان کے ساتھ تھانے چلنا ہوگا تاہم ان لوگوں کے ساتھ کوئی پولیس اہلکار موجود نہیں تھا اس لیے میں نے جانے سے انکار کردیا۔
میڈیا کے مطابق بعدازاں ان افراد نے مولانا اصغر علی کو گھسیٹ کر گاڑی میں بٹھایا اور تھانے کے قریب لے جا کر انہیں گاڑی سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ میڈیا کے مطابق مولانا اصغر علی کو بتایا گیا ہے کہ انہیں ایک سابقہ مدرسے کے طالب علم کے واٹس ایپ اسٹیٹس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔

About Rizwan Malik

Scroll To Top