چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنسز کی تفصیلات طلب کر لیں
کونسل میں ججز کے خلاف 100 شکایات زیر التواہیں،چار ماہ سے ججز کے خلاف شکایات پر کارروائی نہیں ہوسکی ہے
اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے خلاف درج شکایات پر کاروائی کافیصلہ کرتے ہوئے سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل سے کونسل میں دائر ہونے والی شکایات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل سے کہا گیا ہے کہ شکایات کی تفصیلات اسی ترتیب سے فراہم کریں جس ترتیب سے اندراج کیا گیا ہے۔
سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل دائر ہونے والی شکایات کی تفصیلات اوراندراج کی ہی ترتیب سے فراہم کریں گے۔سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف شکایات درج ہیں۔
اس سے قبل سپریم جوڈیشل کونسل نے مارچ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو برخاست کیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف زیر التواشکایات کے جلد فیصلوں کیلئے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کو خط ارسال کیاگیاتھا۔میاں داود ایڈووکیٹ کی طرف سے چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسی کو خط ارسال کیا گیا تھا۔خط کہا گیا تھاکہ چیف جسٹس نے 21 جنوری کو بتایا کہ کونسل میں ججز کے خلاف 100 شکایات زیر التواہیں۔ 4 ماہ سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف شکایات پر کارروائی نہیں ہوسکی۔ 4 ماہ سے مخصوص گروہ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو نان ایشوز میں الجھا رکھا ہے۔خط میں مزید کہا گیا تھاکہ نان ایشوز میں الجھنے کی وجہ سے ججز کے خلاف شکایات پر کارروائی رکی ہوئی ہے۔
190 ملین پاونڈ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے فیصلے کے دن سے مخصوص گروہ متحرک ہے۔ 190 ملین پاونڈ بارے سپریم کورٹ کے فیصلے کے دن سے مخصوص گروہ سازشیں کر رہا ہے۔میاں داود ایڈووکیٹ نے اپنے خط میں مزید لکھا تھاکہ یہ مخصوص گروہ نہیں چاہتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے خلاف شکایات پر مزید کارروائی کرے۔ مخصوص گروہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ تک کونسل کو غیرفعال رکھنا چاہتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کئے تھے۔خط کے مطابق آئین و قانون اور جمہوریت کی بالا دستی کرنے کی وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسی کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ ماضی میں چیف جسٹس صاحبان کرپٹ ججز کو تحفظ فراہم کرتے رہے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ ججز کا احتساب صرف چیف جسٹس قاضی فائز کے دور میں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔
