ماں کی محبت اور عظمت

سعودی عرب کی ایک عدالت میں ایک مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا اور قاضی خود رونے لگا، ساتھ میں جتنے لوگ موجود تھے سب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
یہ واقعہ ایک ایسے شخص کا ہے جو ایک گاؤں میں رہتا تھا، اس کی 90 سال کی بوڑھی ماں تھی جو اس کے لیے اس کی کائنات تھی۔
یہ شخص بھی بوڑھا ہو چکا تھا اور غربت میں دن بسر ہو رہے تھے۔
یہ اپنی ماں کی دن رات دیکھ بھال کرتا اور ماں کو بھی اس بیٹے سے بہت زیادہ محبت تھی اور وہ صبح شام اس کے لیے دعائیں کرتے نہ تھکتی۔یہ شخص اپنی ماں کی خدمت میں سکون اور آخرت کا اچھا گھر دیکھتا تھا۔
سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ دوسرا بیٹا جو شہر میں رہتا تھا وہ اپنی ماں کو لینے آ گیا اور اس کا مطالبہ تھا کہ اتنے عرصے تم نے ماں کو رکھا اب میں اپنے پاس رکھوں گا۔
اس شخص کے لیے یہ ایسا تھا کہ جیسے کسی نے جان سے بڑھ کر کچھ مانگ لیا ہو، اسے اپنی دنیا اندھیری ہوتی نظر آ رہی تھی، اس نے بھائی کو بہت سمجھایا کہ میں ماں کے بنا نہیں رہ سکتا پر اس نے نہ مانا اور ضد پہ اڑا رہا اور یہ معاملہ پنچایت پر حل نہ ہونے پر عدالت تک پہنچ گیا۔
قاضی نے پہلے کوشش کی کہ دونوں کے بیچ صلح ہو جائے پر ایسا نہ ہوا تو قاضی نے ماں کو عدالت میں لانے کو کہا اور جب اسے لایا گیا تو قاضی نے اس سے پوچھا کہ آپ کو کس کے ساتھ رہنا ہے؟
وہ بوڑھی ماں اپنے دامن سے آنکھوں کو خشک کرکے کہنے لگی کہ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے، یہ دونوں بیٹے میری دو آنکھیں ہیں اور کیسے میں ایک بچے کے حق میں دوسرے کے خلاف فیصلہ کر سکتی ہوں، میرے لیے دونوں برابر ہیں۔
قاضی نے اس شخص کی مالی حالت کمزوری اور اس کے بھائی کی حالت اور خوشحالی کے اسباب کو دیکھتے ہوئے چھوٹے بھائی کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔
قاضی کے فیلصہ سناتے ہی وہ شخص دردناک چیخوں کے ساتھ رونے لگا اور عدالت اس کی آواز سے گونج اٹھی۔اس کے بلک بلک کے رونے سے قاضی صاحب اور کمرے میں موجود لوگ بھی آنسوؤں کو روک نہ سکے۔
قاضی صاحب روتے ہوئے کرسی سے اٹھ گئے اور کمرے کے لوگ اس شخص سے گلے لگ کر روئے جب اس شخص نے اپنی ماں کے قدموں کو بوسہ دیتے ہوئے رخصت ہونے کی اجازت چاہی تو چھوٹے بھائی کی بھی چیخیں نکل گئیں۔
خوش نصیب ہے وہ شخص جس کی ماں اور باپ زندہ ہیں اور اسے خبر ہے کہ یہ کتنی بڑی نعمت میرے پاس موجود ہے۔