جی چودھ ون، بندروں کی مارکیٹ — معیشت کا سبق

ایک پُرسکون گاؤں میں ایک اجنبی آیا اور اعلان کیا کہ وہ بندر 10 روپے فی بندر کے حساب سے خریدے گا۔ گاؤں والے خوشی سے بندر پکڑنے لگے۔ جلد ہی بندر کم ہو گئے تو اس نے قیمت 20، پھر 25 اور آخرکار 50 روپے فی بندر کر دی۔ اب بندر تقریباً ختم ہو چکے تھے اور اجنبی کے پنجروں میں سینکڑوں بندر قید تھے۔
پھر وہ شہر چلا گیا اور اپنا معاون گاؤں میں چھوڑ گیا۔ معاون نے کہا، “میں یہ بندر تمہیں 35 روپے فی بندر بیچ دیتا ہوں۔ جب میرا مالک واپس آئے گا تو تم انہیں 50 روپے میں بیچ دینا اور منافع کما لینا۔”
لالچ میں آ کر گاؤں والوں نے اپنی ساری جمع پونجی لگا دی اور بندر خرید لیے۔ مگر وہ شخص اور اس کا مالک کبھی واپس نہ آئے۔ اب گاؤں بندروں سے بھرا تھا، مگر خریدار کوئی نہیں تھا۔
یہی کہانی کچھ جی چودہ ون اور اسٹاک مارکیٹ کا فلسفہ بیان کرتی ہے — قیمتیں بڑھتی ہیں، لوگ لالچ میں آتے ہیں، اور پھر مارکیٹ گر جاتی ہے، نقصان صرف عام لوگوں کا ہوتا ہے۔
سبق: معیشت صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ انسانی نفسیات — لالچ، خوف، اور جھوٹی امیدوں — کی کہانی ہے