اہل فلسطین کی مدد فرض ، ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا،فلسطین کانفرنس کا اعلامیہ

نفلی عمرے کا ارادہ رکھنے والے لوگ وہ رقم فلسطین جہاد کے لئے دیں، اسرائیل اور اس کے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں
پاک فوج کا منشور ایمان، تقوی، جہاد فی سبیل اللہ ہے ،ریاست پاکستان امت مسلمہ کی جنگ نہیں لڑیگی تو اپنے وجود کی نفی کریگی،مولانا فضل الرحمان
55 ہزار سے زائدکلمہ گو افراد کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟تقاضہ تو یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کے بجائے غزہ میں جمع ہوتے،مفتی تقی عثمانی

اسلام آباد:اسلام آبا دمیں منعقدہ فلسطین کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں قراردیاگیا ہے کہاہل فلسطین کی مدد تمام مسلمانوں پر فرض ہے ، ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ریاست پاکستان امت مسلمہ کی جنگ نہیں لڑیگی تو اپنے وجود کی نفی کریگی، پاکستان میں جب بھی مشکلات ہوتی ہیں اس کے پیچھے یہودی سازش ہوتی ہے، ان حالات میں قیام پاکستان کے مقصد کو سمجھنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے وجودکے وقت پاکستان نے اس کو ناجائز بچہ قرار دیا، اسرائیل کے پہلے صدر نے خارجہ پالیسی بیان میں اپنے اہداف دیے تھے، پہلے اسرائیلی صدر نے پاکستان کو ختم کرنیکا پالیسی بیان دیا، پاکستان میں جب بھی مشکلات ہوتی ہیں اس کے پیچھے یہودی سازش ہوتی ہے، ہمیں ان حالات میں قیام پاکستان کے مقصد کو سمجھنا چاہیے، ریاست پاکستان امت مسلمہ کی جنگ نہیں لڑیگی تو اپنے وجود کی نفی کریگی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کا منشور ایمان، تقوی، جہاد فی سبیل اللہ ہے، ن لیگ کی حکومت تو خود کو پاکستان بنانے والی مسلم لیگ کی وارث سمجھتی ہے، ن لیگ ثابت کرے وہ پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ کی وارث ہے، ضروری ہے کہ اہل فلسطین کے ساتھ اظہاریکجہتی کے لیے سب ایک ہوں، مسلمان جہاں اور جس راستے سے شریک ہوسکتے ہوں فلسطینیوں کا ساتھ دیں۔
سربراہ جمعیت علما اسلام کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ریاستی دہشت گرد ہے، قتل و غارت ان کا مشغلہ ہے، اسرائیل کی تاریخ قتل و غارت گری ہے، ایک صدی قبل اسرائیل نامی ملک کا کوئی وجود نہیں تھا،جب اسرائیلی ریاست کا اعلان ہو رہا تھا تو اس وقت صرف 2 فیصد علاقے پر یہ آباد تھے، صہیونی جارحیت کے خلاف فلسطینیوں کا ساتھ دینا تمام مسلمانوں کا فرض ہے ، پاکستان کا ہر فرد فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مفتی تقی عثمانی کے فتوی نے پاکستان اور امت مسلمہ پر جہاد فرض ہونے کا اعلان کیا ہے، آج کی فلسطین کانفرنس امت مسلمہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کرتی ہے، جس مسلمان سے جتنا ممکن ہو وہ اسرائیل کے خلاف عملی جہاد میں حصہ لے۔
معروف عالم دین اور صدر وفاق المدارس العربیہ مفتی تقی عثمانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اہل فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے، ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، 55 ہزار سے زائدکلمہ گو افراد کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟
مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ سال بھر پہلے کنونشن سینٹر میں ایک اجتماع منعقد کیا تھا کہ ہم اہل فلسطین کے ساتھ ہیں اور ان کی ہر طرح سے مدد کریں لیکن ہم عملی قدم کے بجائے کانفرنس پر اکتفا کیے ہوئے ہیں، تقاضہ یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کے بجائے غزہ میں جمع ہوتے۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا نفلی عمرے کا ارادہ رکھنے والے لوگ وہ رقم فلسطین کے جہاد میں دیں، ان کا کہناتھا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کے لیے عملی طورپر کچھ نہیں کرپا رہے، امت مسلمہ آج صرف تماشائی ہے اور صرف مذمتی بیانات دیے جارہے ہیں، امت مسلمہ قراردادوں اورکانفرنسوں پر لگی ہوئی ہے، اب صرف زبانی جمع خرچ سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے، 55 ہزار سے زائدکلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟
صدر وفاق المدارس العربیہ کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ قبلہ اول کی حفاظت کے لیے لڑنے والے مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کرسکی، ہونا تو یہ چاہیے کہ امت مسلمہ جہاد کا اعلان کرتی، ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، معاہدے کے باوجود بمباری جاری ہے، اسرائیل کو نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے نہ ہی عالمی قوانین کی قدر ہے، صہیونیوں کو کسی عقیدے، کسی مذہب اور کسی معاہدے یا وعدے کا پاس نہیں ہے۔
مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے امریکا کے اسلحہ اور حمایت سے مسلمان ملکوں کو مرعوب کیا ہوا ہے۔ غزہ کے ڈاکٹر کا پیغام آیا ہے کہ غزہ آخری سانس لے رہا ہے، غزہ کے ڈاکٹر نے پیغام میں کہا تمہارا بہت انتظار کیا تم نہیں آئے اب اللہ حافظ۔ آج غزہ پر قبضہ اور مسلمانوں کا قبرستان بنانے کے ارادے ظاہر کیے جارہے ہیں، ٹرمپ کہتا ہے کہ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کریں گے جوصدیوں سے آباد ہیں، ٹرمپ وہاں تفریح گاہیں اور دیگر چیزیں بنانا چاہتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ پوری دنیا کو اپنی ملکیت سمجھنا شروع ہوچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں غزہ کو زندہ رکھنا ہے، ضروری ہے کہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، اسرائیل کو مدد دینے والی کمپنیوں کا بھی بائیکاٹ کریں، اسرائیل کے خلاف احتجاج میں کسی کی جان اور مال کو نقصان نہ پہنچے، پتھر برسانا اور کسی کی جان اور مال کو نقصان پہنچانا شریعت میں حرام ہے، اسرائیل اور اس کے حامیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ پرامن طریقے سے ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، بانی پاکستان نے اس کو ناجائز بچہ قرار دیا، ہمارا مقف کسی صورت تبدیل نہیں ہوگا چاہے اسرائیل کے پاس جتنی مرضی طاقت آجائے، ہمارا اسرائیل کے ساتھ جب کوئی معاہدہ نہیں تو کوئی عذر نہیں ، جب اسرائیل معاہدے توڑ چکا ہے تو پھر کون سے معاہدے کی قید ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔