راجہ امتیاز نے ایسے منشیات فروش کی ضمانت لی جس کی ضمانت سپریم کورٹ مسترد کر چکی تھی
آزادکشمیر کی سپریم کورٹ نے سیشن جج حویلی کو عدالتی وقار کو مجروع کرنے ،جھوٹ بولنے پر تین دن قید کی سزا سنادی
اس سزا کے بعد نہ صرف ان کی عدالتی ساکھ ختم ہو گئی ہے بلکہ مستقبل میں انکے خلاف فوجداری اور تادیبی کارروائیوں کا بھی امکان
مظفرآباد ، اسلام آباد (نیوزرپورٹر) آزاد جموں و کشمیر کی عدلیہ میں ایک غیر معمولی اور سنسنی خیز پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی سربراہی میں سابق سیشن جج حویلی کہوٹہ راجہ امتیاز احمد کو توہین عدالت کے جرم میں تین دن قید کی سزا سناتے ہوئے عدالت سے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا، جج راجہ امتیاز کو عدالتی احکامات کی صریح خلاف ورزی، دروغ گوئی اور عدالتی وقار کو مجروح کرنے کے الزامات کا سامنا تھا۔
اصل معاملہ ضلع حویلی کہوٹہ میں "منشیات ایکٹ 1997” کے تحت درج دفعہ 9(c) کے ایک مقدمے سے شروع ہوا، جس میں ایک شخص راجہ دلاور خان کو ہیروئن کی بھاری مقدار رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ملزم کی درخواستِ ضمانت ابتدائی عدالت سے مسترد ہوئی۔بعد ازاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی 19 جنوری 2023 کو ضمانت مسترد کرتے ہوئے واضح حکم دیا تھا کہ ضلعی عدالت چھ ماہ کے اندر مقدمے کا حتمی فیصلہ صادر کرے اور اگر دوران سماعت کوئی نیا مواد سامنے آئے جس سے ملزم۔کو فایدہ پہنچ سکتا ہو تو ضمانت کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کیا جائے۔
اس عدالتی حکم کے صرف ایک ماہ بعد، راجہ امتیاز احمد، جو اس وقت سپیشل جج انسداد منشیات عدالت حویلی کے طور پر تعینات تھے، نے 16 فروری 2023 کو دفعہ 265-K (Cr.P.C) کے تحت ملزم کو بری کر دیا اور ملزم بیرون ملک فرار بھی ہو گیا۔ باوجود اس کے کہ کیس کی اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھی اور سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود تھا۔
چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی سربراہی میں فل بینچ نے راجہ امتیاز کے اقدام کو عدالتی حکم عدولی، دروغ گوئی و جھوٹا بیان اور مس کنڈکٹ قرار دیا۔ عدالت کے روبرو جب راجہ امتیاز سے اس بریت حکم سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا، تاہم عدالتی ریکارڈ سے ان کا حکم نامہ برآمد ہو گیا۔
اسی دوران ایک ماہ قبل سپریم کورٹ نے راجہ امتیاز کو معطل کر کے انکوائری کا حکم دیا تھا، جبکہ ان کے تمام سابقہ فیصلوں بالخصوص مظفرآباد، پلندری اور حویلی میں منشیات کے مقدمات کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کیا گیا تھا۔
ایک ماہ کی انکوائری کے بعد، 2 جولائی 2025 کو سپریم کورٹ نے واضح طور پر قرار دیا کہ راجہ امتیاز نے توہین عدالت کا ارتکاب کیا، سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو چیلنج کیا اور عدالت میں جھوٹ بول کر ادارے کا وقار مجروح کیا۔ لہٰذا، عدالت نے فوری طور پر تین دن کی سزا دیتے ہوئے انہیں کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
راجہ امتیاز احمد ماضی میں سدھنوتی، مظفرآباد اور حویلی جیسے حساس اضلاع میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹس کے معاملے میں اسلام آباد کے دو صحافیوں راجہ ماجد افسر اور اعجاز خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چلانے پر بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔ تاہم، اب وہ خود اعلیٰ عدلیہ کے کٹہرے میں ہیں اور ان کے خلاف ایک نئی مثال قائم ہو چکی ہے کہ قانون سےکوئی بالا تر نہیں، چاہے وہ خود قانون کے رکھوالے ہی کیوں نہ ہوں۔
قانونی ماہرین کے مطابق، راجہ امتیاز کی اس سزا کے بعد نہ صرف ان کی عدالتی ساکھ مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے بلکہ مستقبل میں انکے خلاف ریاست میں نافذ فوجداری اور تادیبی کارروائیوں کا بھی امکان ہے
منشیات فروش کی ضمانت لینے والے سیشن جج کو ہتھکڑی لگ گئی


