پاکستان کے امیر ترین شخص کا بے مثال انداز عزاداری

یہ واقعہ میں نے خطیب آل محمد (ص) قبلہ سید اظہر حسن زیدی صاحب سے سنا اور انہیں یہ بات خود اس امیر ترین شخص نے سنائی
50 کی دہائی کی بات ھے۔ کراچی روز عاشور کے جلوس میں ایک شخص بوسیدہ سیاہ لباس پہنے ماتم میں مصروف تھا۔ آس پاس کے لوگوں سے بالکل بے نیاز ہو کر اپنی دھن میں مگن۔
جلوس میں شریک ایک عزادار کو اس کا یہ انداز بہت بھلا معلوم ہوا۔ اس نے اس ماتم دار کو فقیر سمجھا۔ سستے زمانے تھے۔ اس نے جیب سے دس روپے کا نوٹ نکالا۔ اور خاموشی سے اس ماتمدار کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس نے اس نوٹ کو چوما اور جیب میں ڈال لیا۔
وہ مومن کہتا ھے کہ میری نظریں اس فقیر پر مرکوز رھیں.جب جلوس وداع ہوا اور ہم گھروں کو واپس لوٹے تو میں نے دیکھا کہ ایک دس گز لمبی شیورلے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ ایک لمبے تڑنگے جوان نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور وہ فقیر اس گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔
مجھے سخت حیرت ہوئی۔ میں نے آس پاس کے لوگوں سے پوچھا کہ یہ شخص کون تھا؟پتہ چلا کہ وہ اس وقت کا پاکستان کا امیر ترین شخص تھا اور پاکستان کے سب سے بڑے بینک کا مالک تھا.مجھے اپنے آپ پر سخت غصہ آیا اور شرمندگی محسوس ہوئی
اگلے دن میں اس کے دفتر پہنچ گیا۔ اس نے مجھے بڑے احترام سے بٹھایا اور تواضع کی۔
میں نے ان سے معذرت کی اور اپنے کئے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ وہ رونے لگے۔ بولے ۔ ۔ آپ نے مجھے بہت بڑی رسید عطا کی۔ میں نے وہ نوٹ سنبھال لیا ھے اور اپنے بیوی بچوں کو وصیت کی ھے کہ جب میں مروں تو میرے کفن میں یہ نوٹ ضرور رکھ دینا۔ میں مخدومہ کونین صلواۃ اللہ علیہا کی بارگاہ اقدس میں یہ نوٹ بطور ثبوت پیش کرکے عرض کروں گا کہ بی بی میں آپ کے مظلوم شہزادے کا غم اس طرح سے مناتا تھا کہ ایک شخص نے فقیر سمجھ کر مجھے یہ خیرات دی۔
عزاداران امام عالی مقام (ص) یہ کوئی کہانی نہیں۔ حقیقت ھے۔ اور اس میں ہر صاحب شعور کیلئے ایک بہت بڑی نصیحت ھے۔