چین کیساتھ سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا ہے: بھارتی وزیر خارجہ

دو انتہائی طاقتور ممالک کے درمیان اس سطح کا کوئی معاہدہ ہونا اور جنگ ہوئے بغیر فوجیوں کا پیچھے ہٹ جانا بھی بہت بڑی کامیابی ہے
دونوں طرف کے فوجیوں کے پیچھے ہٹنے سے ہمیں حالات پر مزید غور کرنے اور انہیں بہتر بنانے کا موقع ملا ہے

پونا/ انڈیا:بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے واضح کیا ہے کہ چین کے ساتھ سب کچھ حل نہیں ہوا ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے پونے میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے چین کے معاملے میں اب کھل کر گفتگو کی ۔انہوں نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ حقیقی لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر گشت کو لے کر چین کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے سے دونوں ممالک کے درمیان سبھی معاملے حل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوجیوں کے پیچھے ہٹنے سے اگلے قدم پر غور و فکر کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس معاہدے کا سہرا انہوں نے فوج کے سر باندھتے ہوئے کہا کہ بہت ہی غیرمعمولی حالات میں فوج نے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔
پونے میں منعقدہ ایک پروگرام کے دوران خطاب میں انہوں نے کہا کہ فوجیوں کے پیچھے ہٹنے کا اکتوبر کو جو معاہدہ ہوا، اس کے تحت دیپ سانگ اور ڈیم چوک میں گشت کی جائے گی۔ اس سے اب ہم اگلے قدم پر غور کر سکیں گے۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ حل ہو گیا ہے لیکن فوجیوں کے پیچھے ہٹنے کا پہلا مرحلہ ہے اور ہم اس سطح تک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو انتہائی طاقتور ممالک کے درمیان اس سطح کا کوئی معاہدہ ہونا اور جنگ ہوئے بغیر فوجیوں کا پیچھے ہٹ جانا بھی بہت بڑی کامیابی ہے لیکن ہم اسے حتمی کامیابی نہیں مان رہے ہیں۔ ہماری حتمی کامیابی تبھی ہو گی جب ہم اپنے تمام مطالبات منواتے ہوئے مسئلہ حل کریں۔
اس پروگرام کے دوران طلبہ سے بات چیت کے دوران ایک سوال کے جواب میں جئے شنکر نے کہا کہ تعلقات کو عام بنانے میں ابھی وقت لگے گا۔ بھروسے کو پھر سے قائم کرنے اور ساتھ مل کر کام کرنے میں فطری طور پر وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب وزیر اعظم مودی نے برکس سمیلن کے لئے روس کے قازان میں چینی صدر شی جنگ پنگ سے ملاقات کی تھی تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر ملیں گے اور دیکھیں گے کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔
جئے شنکر نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں ہندوستان نے اپنے بنیادی ڈھانچے میں بہت سدھار کیا ہے۔ آج ہم ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں فی سال پانچ گنا زیادہ وسائل لگا رہے ہیں جس کے نتیجے سامنے آنے لگے ہیں اور فوج کو حقیقت میں موثر ڈھنگ سے تعینات کرنے کا پلان بنا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ کچھ دن قبل ہندوستان اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی کے پاس فوجیوں کی واپسی اور گشت کو لے کر معاہدہ ہوا تھا جو چار سال سے زیادہ وقت سے جاری تعطل کو ختم کرنے کی سمت میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ جون میں گلوان وادی میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان شدید مزاحمت کے بعد تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور دونوں ہی طرف کی فوجیں یہاں آمنے سامنے آگئی تھیں۔ اس معاہدے پر حکومت بھلے ہی اپنی پیٹھ تھپتھپارہی ہے لیکن اپوزیشن پارٹی کانگریس نے سرکار سے کئی سخت سوال پوچھے ہیں اور دریافت کیا ہے کہ کیا معاہدہ کے بعد ہندوستانی فوجیں بفر زون قائم کرسکیں گی ؟ دفاعی ماہرین بھی یہی سوال دہرارہے ہیں کیوں کہ اگر معاہدہ میں یہ بات شامل نہیں ہے تو ان کا اندیشہ ہے کہ چینی فوج ایک مرتبہ پھر لداخ کے کئی کلومیٹر اندر تک داخل ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔