جنگ بندی کو مستقل کرنے اور دیگر معاملات پربات چین کے لئے 6 نومبر کو دوبارہ مذاکرات ہوں گے
استنبول:ترکیہ کی کوششوں سے پاکستان اور افغانستان دوبارہ جنگ بندی پر متفق ہوگئے ہیں ۔ ترک وزارت خارجہ کے مطابقافغانستان اور پاکستان نے استنبول میں 6 نومبر سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور اس موقع تک جنگ بندی قائم رکھنے پر اتفاق کیا ہے، وزارتِ خارجہ نے جمعرات کو جاری بیان میں کہا: "تمام متعلقہ فریقین نے جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے نفاذ کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے گا اور حتمی فیصلہ 6 نومبر 2025 کو استنبول میں منعقد ہونے والے اعلی سطحی اجلاس میں کیا جائے گا۔”
یاد رہے کہ افغان اور پاکستانی حکام کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات کئی روز جاری رہے، جن کی ثالثی انقرہ اور دوحہ نے کی تھی۔ مذاکرات کے اختتام پرفریقین اتفاق کیا کہ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ اس بات افغانستان کے عبوری انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی۔
واضح رہے کہ چند روز قبل دونوں ممالک کی سرحد پر ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپوں کے بعد، 19 اکتوبر کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان مذاکرات دوحہ میں منعقد ہوئے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں یہ بات چیت ایک جنگ بندی کے نفاذ پر متفق ہوئی، جو اس وقت بھی جاری ہے۔
استنبول میں ہونے والی حالیہ ملاقات کا مقصد پائیدار امن کے حصول کے لیے مزید پیش رفت کرنا تھا اور مذاکرات کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ پاکستان کی جانب سے کیا گیا، جو قطر اور ترکیہ کی درخواست پر عمل میں آیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی وفد، جو گزشتہ شب وطن واپس جانے والا تھا، اسے استنبول میں قیام کرنے کے لیے کہا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان ہمیشہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دوران فرنٹ لائن ریاست رہا ہے اور اس نے تقریبا چار ملین افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی تاہم، دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر تحریکِ طالبانِ پاکستان (TTP) کی جانب سے پاکستان میں کیے جانے والے پرتشدد حملوں نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں شدید تنا وپیدا کیا ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پر TTP کو پناہ دے رہا ہے، جبکہ کابل اس الزام کو یکسر مسترد کرتا ہے۔پاکستانی عسکری حکام کے مطابق، اس سال اب تک 500 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں 311 سے زائد فوجی شامل ہیں اور زیادہ تر حملے TTP کی جانب سے کیے گئے ہیں۔
یہ پیش رفت نہ صرف خطے میں امن کی بحالی کے لیے اہم قدم ہے بلکہ اس بات کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان، باوجود تاریخی تنازعات کے، مسائل کے حل کے لیے بات چیت کا راستہ ترک نہیں کر رہے۔ استنبول میں ہونے والے یہ مذاکرات اس امید کی کرن ہیں کہ شاید اب دونوں ہمسایہ ممالک دیرپا امن اور استحکام کی طرف ایک قدم بڑھا سکیں۔

