جنوبی کوریا، دنیا کے 10امیر ترین ممالک میں‌سے ایک


دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور کی روزانہ اجرت پاکستانی 28,000 روپے کے برابر بنتی ہے
بیس بڑی پرائیویٹ کمپنیاں اتنی امیر ہیں کہ ہر ایک کا سالانہ بجٹ پاکستان کے مجموعی بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ
رقبے میں ہمارے پنجاب سے آدھا آبادی پنجاب کی آدھی سے بھی کم ، تیل گیس لوہا سمیت کسی قسم کی معدنیات پیدا نہیں ہوتیں

اسلام آباد÷ سیول:افرادی قوت زیرو ہے ۔ کوریا میں تیل گیس لوہا سمیت کسی قسم کی معدنیات پیدا نہیں ہوتیں حتی کہ اپنی ضرورت کی سبزی اور پھل بھی باہر سے منگوانا پڑتا ہے ۔ اور انتظام ایسا اعلی ہے کہ تیل گیس بجلی پھل سبزی آج تک کبھی ختم ہوئے ہیں نہ کبھی کم ہوئے ہیں نہ کبھی اچانک مہنگے ہوئے ہیں ۔ ہر چیز ہر وقت عام دستیاب اور امیر غریب کی پہنچ میں ہوتی ہے ۔
کسی قسم کی معدنیات نہ ہونے اور افرادی قوت بھی کم ہونے کے باوجود کوریا دنیا کے دس امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے ۔
کوریا کی بیس بڑی پرائیویٹ کمپنیاں اتنی امیر ہیں کہ ہر ایک کا سالانہ بجٹ پاکستان کے مجموعی بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے ۔
سام سنگ ، ہنڈائی ، کیا ، ڈائیوو ، پوسکو کو تو چھوڑیں ،12 ویں بڑی کمپنی لوتے کا بجٹ 120 ارب ڈالر سے زیادہ ہے ۔
کوریا میں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور کی روزانہ اجرت پاکستانی 28,000 روپے کے برابر بنتی ہے ۔
یہاں مزدور ایک دن کی کمائی سے 80 لیٹر پٹرول ، یا 55 لیٹر دودھ یا 25 کلو چکن یا 10 کلو مٹن یا 20 کلو سیب خرید سکتا ہے ۔ گھر میں دن رات AC چلائیں تو بجلی کا بل 7,000 روپے سے زیادہ نہیں آتا ۔
2 دن کی کمائی سے ایک فیملی پورے ماہ کی خوراک خرید سکتی ہے ۔ ایک ماہ کی کمائی سے چمچ پلیٹ سے لیکر فریج ، ٹی وی ، اے سی تک گھر کی ہر چیز خرید سکتا ہے ۔
مزدور پندرہ دن کی کمائی سے کار خرید سکتا ہے ۔
‏کوریا نے ایک بار چند ارب لگا کر سب ادارے کمپیوٹر سے منسلک کر دیئے تھے ،اب پچھلے تیس سال سے کبھی مردم شماری نہیں ہوئی ،
مگر سالانہ اور ماہانہ کتنی شادیاں اور طلاقیں ہوئیں ، کتنے فوت ہوئے اور کتنے بچے پیدا ہوئے ، کتنے BA ، MA پاس ہوئے ، کتنے بچے سکول نہیں جا رہے ،یہ سب ہر شہر ، ضلع ، یونین کونسل تک کا ریکارڈ ہوتا ہے۔
یقین کریں
ملک نہ تو معدنیات سے ترقی کرتے ہیں نہ افرادی قوت سے کرتے ہیں ،نہ باتیں کرنے اور شور مچانے سے ترقی ہوتی ہے ۔ ترقی صرف ایماندار اور مخلص قیادت سے بھی نہیں ہوتی ۔
انصاف، سخت قانون اور اس پر سختی سے عمل نظر آنا چاہئیے۔ جس ملک میں قانون کا ڈنڈا نہیں چلتا ، وہاں کبھی ترقی کا پہیہ نہیں چلتا ۔