گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن

مجھے تنقید کی پرواہ نہیں میں چاہتی ہوں لوگ مجھے نہیں، بلکہ سچائی کو سنیں

سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ
دنیا آج کئی بحرانوں کی زد میں ہے۔ جنگیں، معاشی ابتری، بھوک اور بے روزگاری جیسے مسائل تو ہیں ہی، مگر سب سے بڑا بحران وہ ہے جسے ماہرینِ سائنس اور عالمی ادارے صدی کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں: ماحولیاتی تبدیلی۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، برف کے پہاڑوں کا پگھلنا، سمندروں کا بڑھتا ہوا شور اور جنگلات کی کٹائی نے زمین کو ایک ایسے خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں انسانی بقا خطرے میں ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے رہنما کانفرنسوں میں تقریریں تو کرتے ہیں، مگر عملی اقدامات کم نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ایک کم سن لڑکی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ لڑکی ہے سویڈن کی گریٹا تھن برگ، جو صنفِ نازک کے باوجود ایک مردِ آہن کی مانند ڈٹ کر دنیا کی طاقتوں کو للکارتی ہے۔
گریٹا ٹنٹن ایلینورا ارنمَن تھن برگ ۳ جنوری ۲۰۰۳ء کو اسٹاک ہوم، سویڈن میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک فنکار گھرانے سے ہے۔ والدہ ملینا ارنمَن عالمی شہرت یافتہ اوپیرا سنگر ہیں اور والد سوانتے تھن برگ ایک اداکار۔ فنونِ لطیفہ سے جڑے اس گھرانے نے گریٹا کی شخصیت میں اعتماد اور اظہار کی قوت پیدا کی، مگر ان کی اصل پہچان فن نہیں بلکہ ماحولیات سے جڑی فکر بنی۔
گریٹا صرف آٹھ برس کی تھیں جب انہوں نے اسکول میں گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پڑھا۔ وہ کئی دن اس سوچ میں گم رہیں کہ اگر دنیا اسی طرح تباہ ہوتی رہی تو مستقبل کی نسلوں کا کیا ہوگا۔ یہ سوال ان کے ذہن میں بیٹھ گیا اور رفتہ رفتہ ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔
انہیں ایسپرگر سنڈروم (Asperger Syndrome) لاحق ہے، جو آٹزم اسپیکٹرم کی ایک کیفیت ہے۔ عموماً لوگ اسے کمزوری سمجھتے ہیں، مگر گریٹا اسے اپنی طاقت قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ کیفیت انہیں غیر معمولی توجہ اور استقامت عطا کرتی ہے۔
۲۰۱۸ء میں گریٹا صرف پندرہ سال کی تھیں جب انہوں نے اسکول چھوڑ کر سویڈش پارلیمنٹ کے باہر احتجاج شروع کیا۔ ان کے ہاتھ میں ایک تختی تھی جس پر لکھا تھا:
“Skolstrejk för klimatet”
(یعنی: ماحولیاتی تبدیلی کے لیے اسکول سٹرائیک)
شروع میں وہ اکیلی تھیں، مگر ان کی خاموش بیٹھک نے میڈیا اور عوام کی توجہ کھینچ لی۔ رفتہ رفتہ یہ احتجاج دنیا بھر میں پھیل گیا۔ لاکھوں طلبہ ہر جمعہ اسکول چھوڑ کر سڑکوں پر نکلنے لگے اور ماحولیات کے تحفظ کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس تحریک کو Fridays for Future کا نام ملا۔
گریٹا کی تحریک نے انہیں عالمی رہنما بنا دیا۔ وہ یورپی پارلیمان، ورلڈ اکنامک فورم، اور اقوامِ متحدہ جیسے بڑے فورمز پر مدعو کی گئیں۔
ستمبر ۲۰۱۹ء میں نیویارک میں منعقدہ Climate Action Summit میں ان کی تقریر نے دنیا کو ہلا دیا۔ ان کا جملہ “How dare you!” آج بھی ماحولیاتی تحریک کا استعارہ ہے۔ گریٹا نے عالمی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ اپنی وقتی آسائشوں کے لیے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو برباد کر رہے ہو۔
۲۰۱۹ء میں ٹائم میگزین نے گریٹا کو “Person of the Year” قرار دیا۔ وہ سب سے کم عمر شخصیت تھیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔
ان کی تقاریر کا مجموعہ “No One Is Too Small to Make a Difference” شائع ہوا، جو دنیا بھر میں مقبول ہوا۔
ان پر دستاویزی فلم “I Am Greta” (۲۰۲۰ء) ریلیز ہوئی، جس نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔
جہاں گریٹا کو بے پناہ حمایت ملی، وہیں انہیں سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ برازیل کے صدر جائر بولسونارو نے انہیں “brat” کہا، اور ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان کا مذاق اڑایا۔ لیکن گریٹا نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ کہتی ہیں:
“میں چاہتی ہوں لوگ مجھے نہیں، بلکہ سچائی کو سنیں۔”
گریٹا نے اپنی آواز صرف ماحولیاتی مسائل تک محدود نہیں رکھی بلکہ انسانی حقوق اور انصاف کے لیے بھی کھل کر بات کی۔ انہوں نے یوکرین جنگ پر متاثرین کی حمایت کی، اور فلسطین میں جاری انسانی بحران پر بھی بارہا احتجاج کیا۔ ان کے مطابق، انسانی بقا اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مسائل ہیں۔
اکتوبر ۲۰۲۵ء میں گریٹا تھن برگ ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ وہ ایک بین الاقوامی قافلے Global Sumud Flotilla کا حصہ تھیں، جس میں تقریباً ۴۰ کشتیوں پر ۵۰۰ سے زائد کارکن، وکلاء اور سیاسی رہنما سوار تھے۔ اس قافلے کا مقصد غزہ کی محصور آبادی کے لیے انسانی امداد پہنچانا تھا۔تاہم اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں ان کشتیوں کو گھیر لیا اور انہیں اشدود بندرگاہ کی طرف مڑنے پر مجبور کیا۔ اس دوران گریٹا سمیت درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ اسرائیل نے اعلان کیا کہ “گریٹا اور ان کے ساتھی محفوظ ہیں” مگر دنیا بھر میں اس کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ گریٹا کی جدوجہد محض ماحولیات تک محدود نہیں بلکہ وہ ہر اس جدوجہد میں شامل ہوتی ہیں جہاں انسانیت کو دبایا جاتا ہے۔ غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ان کی ہمت اور اصول پسندی کو واضح کرتا ہے۔
گریٹا تھن برگ آج کروڑوں نوجوانوں کے لیے امید کی علامت ہیں۔ ان کا پیغام سادہ ہے:
“کوئی بھی شخص اتنا چھوٹا نہیں کہ فرق نہ ڈال سکے۔”
یہی پیغام دنیا کے ہر اس نوجوان کو حوصلہ دیتا ہے جو مایوس ہے کہ وہ تنہا کیا بدل سکتا ہے۔ گریٹا نے عملی طور پر دکھا دیا کہ ایک پندرہ سالہ بچی اکیلی بیٹھ کر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کر سکتی ہے۔
گریٹا تھن برگ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک ہیں۔ وہ صنفِ نازک میں مردِ آہن ہیں، جو اپنے عزم اور استقامت سے دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں کو للکارتی ہیں۔ چاہے ماحولیات کا مسئلہ ہو یا فلسطین کے مظلوم عوام کا درد، گریٹا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سچائی اور حوصلہ سب سے بڑی طاقت ہیں۔
ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل طاقت دولت، اسلحہ یا حکومت میں نہیں، بلکہ اصول پسندی اور جرات میں ہے۔ آج اگر دنیا کو بچانا ہے تو ہمیں گریٹا کی طرح سچ بولنے اور عمل کرنے کی ہمت پیدا کرنا ہوگی